میرے پیارے پڑھنے والو، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں حکومتی پالیسیوں کا کتنا گہرا اثر ہوتا ہے؟ میں نے تو اکثر دیکھا ہے کہ ایک چھوٹا سا فیصلہ بھی کیسے ہم سب کی قسمت بدل دیتا ہے۔ پالیسی تجزیہ کار وہ گمنام ہیرو ہوتے ہیں جو ان پیچیدہ معاملات کو سلجھاتے ہیں اور ہمارے مستقبل کو روشن بنانے کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔ یقین مانیں، ملک بھر میں ایسی کئی شاندار عوامی پالیسیوں کی کہانیاں موجود ہیں جنہوں نے لوگوں کی زندگیوں میں حقیقی بہتری لائی ہے، چاہے وہ ریلوے کی ریکارڈ ترقی ہو یا پنجاب میں ای-ٹیکسی جیسے جدید منصوبے۔ یہ سب ہماری اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار کی بات نہیں، یہ ہمارے معاشرے کی ترقی اور ہر شہری کے بہتر کل کی امید ہے۔ آئیے، آج ہم انہی پالیسی سازوں کی محنت اور کامیاب عوامی حکمت عملیوں کے بارے میں مزید تفصیل سے جانتے ہیں!
عوامی فلاح کے رنگ: پالیسیوں سے نکھرتی زندگی

جب حکومت اور عوام مل کر چلیں: ریلوے کی روشن مثال
میں نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ جب عوامی نمائندے اور عوام ایک ساتھ کسی مقصد کے لیے کھڑے ہو جائیں، تو معجزے رونما ہوتے ہیں۔ ریلوے کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ پاکستان ریلوے، جو کبھی خسارے کا شکار ادارہ سمجھا جاتا تھا، آج منافع بخش اور جدیدیت کی راہ پر گامزن ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ماضی میں ٹرینوں کا سفر کتنا مشکل ہوتا تھا، لیکن اب جو تبدیلیاں آئی ہیں، وہ ناقابل یقین ہیں۔ حکومت نے سرکاری اور نجی شعبے کی شراکت کو فروغ دیا ہے تاکہ ریلوے کو ایک پائیدار اور جدید ادارہ بنایا جا سکے۔ اس سے نہ صرف نئے منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد ہوا ہے بلکہ عوام کو بہتر سفری سہولیات بھی ملی ہیں۔ رواں مالی سال 25-2024 میں ریلوے کی آمدن 93 ارب روپے تک پہنچ گئی، جو اس کی 78 سالہ تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ مسافر ٹرینوں سے 47.5 ارب اور مال گاڑیوں سے بھی خاطر خواہ آمدن ہوئی ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی خوشیاں ہیں جو اپنے پیاروں سے ملنے یا روزگار کے لیے سفر کرتے ہیں۔ بجلی کے بہتر استعمال، میٹرائزیشن اور سولرائزیشن جیسے جدید اقدامات کی بدولت 416.6 ملین روپے کی ریکارڈ بچت بھی کی گئی ہے۔ بجلی چوری کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی نے بھی ادارے کی کارکردگی کو بہت بہتر بنایا ہے۔ ریلوے اب صرف آمدن میں اضافہ ہی نہیں کر رہا بلکہ اس نے مختلف ڈویژنوں میں جدید سہولیات جیسے مفت وائی فائی اور بہتر انفارمیشن ڈیسک بھی فراہم کیے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے کہ ہماری پالیسیاں واقعی فرق پیدا کر رہی ہیں۔
ڈیجیٹل انقلاب: ای-گورننس سے بدلتی تقدیریں
آج کے دور میں جب ہر چیز ڈیجیٹل ہو رہی ہے تو حکومتی اداروں کا پیچھے رہنا ممکن نہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ای-گورننس کے منصوبوں نے کس طرح عام آدمی کی زندگی کو آسان بنایا ہے۔ پنجاب میں الیکٹرک بس سروس کا آغاز ہو یا راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے) میں ای-گورننس سسٹم کا نفاذ، یہ سب جدت کی طرف ہمارے سفر کی کہانیاں ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ ہماری حکومتیں اب پرانے طریقوں کو چھوڑ کر نئے دور کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہیں۔ راولپنڈی میں فنانشل اکاؤنٹنگ اینڈ بجٹنگ سسٹم (FABS) اور آفس آف کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس (CGA) کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے ہیں تاکہ مالیاتی امور میں شفافیت اور کارکردگی کو فروغ دیا جا سکے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو میرے خیال میں بدعنوانی کو ختم کرنے اور سرکاری خدمات کو عوام تک تیزی سے پہنچانے میں مدد دے گا۔ ای-ٹیکسی جیسے منصوبے بھی نہ صرف شہریوں کو سہولت فراہم کرتے ہیں بلکہ ماحول کو آلودگی سے بچانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب کوئی نئی ٹیکنالوجی متعارف ہوتی ہے تو شروع میں تھوڑی مشکلات آتی ہیں، لیکن پھر وہی چیز ہماری زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ پاکستان کی اے آئی پالیسی بھی اسی سمت میں ایک اہم قدم ہے، جس کے تحت 10 لاکھ نوجوانوں کو تربیت دینے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس سے نہ صرف ہمارے نوجوانوں کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے بلکہ ہم دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہو سکیں گے۔ یہ سب ہماری اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
زرعی شعبے میں نئی سحر: کسانوں کی خوشحالی کا سفر
کاشتکاروں کی حمایت: قرضوں اور جدید مشینری کی فراہمی
میں ہمیشہ سے یہ بات کہتی آئی ہوں کہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہے، اور جب تک کسان خوشحال نہیں ہوگا، ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت نے زرعی شعبے کو جدید بنانے اور کاشتکاروں کی حالت بہتر بنانے کے لیے کئی انقلابی اقدامات کیے ہیں۔ مجھے یاد ہے ماضی میں چھوٹے کسانوں کو قرض لینے میں کتنی مشکل ہوتی تھی، لیکن اب حکومت نے بلاسود قرضوں کی فراہمی اور جدید زرعی مشینری کی امدادی قیمتوں پر فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔ 2019 میں زرعی شعبے میں نئی جہتیں متعارف کروائی گئیں، جس سے یہ شعبہ منافع بخش بن گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے کسانوں کو 46 کروڑ روپے کی جدید زرعی مشینری امدادی قرضوں پر دی ہے اور فصلوں کی 80 نئی اقسام کی منظوری دی ہے۔ میرے تجربے میں، ایسے اقدامات براہ راست کسانوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالتے ہیں، انہیں اپنی پیداوار بڑھانے اور بہتر منافع کمانے کا موقع ملتا ہے۔ زرعی تحقیقی مراکز کو فعال بنایا جا رہا ہے تاکہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سب ہماری اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے جس سے ملک میں سبز انقلاب آ رہا ہے۔
پانی اور توانائی کا انتظام: پائیدار زرعی ترقی
آج کے دور میں پانی اور توانائی دونوں ہی بہت اہم ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کسانوں کو آبپاشی کے لیے کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور بجلی کے بلوں کا بوجھ بھی انہیں پریشان کرتا تھا۔ لیکن اب حکومت نے زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک بہت ہی احسن اقدام ہے جو نہ صرف کسانوں کے اخراجات کم کرے گا بلکہ ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔ اس منصوبے کے تحت کسانوں کو سولر ٹیوب ویلز کے لیے تین سال تک کی قسطوں میں قرض ادا کرنے کی سہولت بھی میسر ہوگی۔ اس کے علاوہ، حکومت نے کپاس کی مداخلتی قیمت کے لیے سفارشات کو حتمی شکل دی ہے، تاکہ کاشتکاروں کو ان کی محنت کا پورا صلہ مل سکے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب ایک پائیدار زرعی ترقی کی بنیاد رکھ رہے ہیں جہاں کسان ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔
صحت و تعلیم کا معیار: ایک بہتر مستقبل کی ضمانت
معیاری تعلیم کی جانب: اصلاحات کا سفر
ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس کی تعلیم میں پوشیدہ ہے۔ میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمارے بچوں کو بہترین تعلیم ملنی چاہیے۔ پاکستان میں تعلیمی پالیسیوں کا ایک طویل سفر رہا ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ حکومت تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اگرچہ ماضی میں تعلیم اور صحت ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں رہے، لیکن اب اس صورتحال کو بدلنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب 1970 میں بھٹو دور میں تعلیمی پالیسی آئی تھی تو اس کا مقصد تعلیم کو عوامی حق بنانا تھا، جس کے تحت نجی اداروں کو قومیایا گیا اور تعلیمی منصوبہ بندی کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی طرح، اب ہمیں ضرورت ہے کہ ہم ایسی پالیسیاں بنائیں جو ہر بچے کو معیاری تعلیم تک رسائی دے سکیں۔ مصنوعی ذہانت (AI) کو تعلیم کا حصہ بنانے اور طلباء کے لیے تحقیق میں فنڈنگ سپورٹ فراہم کرنے جیسی سفارشات ایک روشن مستقبل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ میرے خیال میں، جب تعلیم کا معیار بہتر ہوتا ہے تو پورا معاشرہ ترقی کرتا ہے۔
صحت کی سہولیات: ہر شہری کا حق
صحت مند معاشرہ ہی ایک مضبوط قوم کی بنیاد ہوتا ہے۔ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ صحت کی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے کتنے لوگ پریشان ہوتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ حکومت صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے سنجیدہ ہے۔ ایک اچھی پالیسی ہی اس شعبے میں حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے۔ حال ہی میں پاکستان میڈیکل کونسل کی نئی پالیسی پر بحث ہوئی ہے، جس کا مقصد میڈیکل ایجوکیشن کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔ اگرچہ اس پالیسی کے کچھ پہلوؤں پر طلبہ کو تحفظات ہیں، لیکن اصل مقصد معیاری ڈاکٹرز تیار کرنا ہے جو ہمارے ملک کی خدمت کر سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت ان تحفظات کو دور کرے گی اور ایسی پالیسی بنائے گی جو نہ صرف معیار کو بہتر بنائے بلکہ ہمارے ڈاکٹروں کو بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کروائے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں میری رائے میں، کسی قسم کی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
انفراسٹرکچر کی تعمیر: ترقی کی نئی راہیں
جدید سڑکیں اور شہری ترقی: رابطوں کی مضبوطی
ہماری روزمرہ کی زندگی میں سڑکوں اور جدید انفراسٹرکچر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے تو خود دیکھا ہے کہ ایک اچھی سڑک کیسے دوریاں مٹا دیتی ہے اور لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرتی ہے۔ پنجاب میں بڑے پیمانے پر عوامی فلاحی منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن میں سینی ٹیشن، صاف پانی کی فراہمی اور دیہی علاقوں میں رابطہ سڑکوں کی بحالی شامل ہے۔ یہ سب 80 ارب روپے کی لاگت سے سی ایم پنجاب ڈسٹرکٹ ایس ڈی جی پروگرام کے تحت ہو رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب کوئی نیا روڈ بنتا تھا تو کتنا شور ہوتا تھا کہ یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے، لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان منصوبوں سے عام لوگوں کو براہ راست فائدہ ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حالیہ دورے میں الیکٹرک بس سروس کا افتتاح اور سیلاب متاثرین سے ملاقاتیں بھی اسی عزم کی عکاسی کرتی ہیں۔ میرے تجربے میں، جب حکومت نچلی سطح پر ترقیاتی کاموں پر توجہ دیتی ہے تو عوام کا اعتماد بڑھتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا پیسہ ان پر ہی لگایا جا رہا ہے۔
توانائی کے منصوبے: خوشحالی کا ایندھن
توانائی کسی بھی ملک کی ترقی کا انجن ہوتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ حکومت اب پائیدار توانائی کے ذرائع پر توجہ دے رہی ہے۔ شمسی توانائی پر زرعی ٹیوب ویلز کی منتقلی ایک بہت اچھا قدم ہے۔ اس سے نہ صرف کسانوں کو فائدہ ہوگا بلکہ ملک کو بھی توانائی کے بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ میرے خیال میں، یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم روایتی ایندھن پر انحصار کم کریں اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دیں۔ یہ صرف بجلی کے بلوں کی بچت کی بات نہیں، یہ ہمارے مستقبل اور ماحول کے تحفظ کی بات ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بجلی جاتی تھی تو گھروں میں کیا حال ہوتا تھا، لیکن اب ایسے منصوبوں سے امید کی کرن نظر آتی ہے۔
اقتصادی استحکام: مضبوط معیشت، روشن مستقبل

چھوٹی صنعتوں کو فروغ: روزگار کے نئے دروازے
میں ہمیشہ سے مانتی ہوں کہ چھوٹی اور درمیانی صنعتیں کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ حکومت اب ان شعبوں پر توجہ دے رہی ہے۔ ماضی میں، بڑے صنعت کاروں کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، لیکن اب چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بھی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ میرے تجربے میں، جب چھوٹے کاروبار ترقی کرتے ہیں تو اس سے براہ راست عام آدمی کو روزگار ملتا ہے اور ملکی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں چھوٹی صنعتوں کا حصہ 35 فیصد ہے، اور انہیں مزید فروغ دے کر ہم اپنی معاشی صورتحال کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، یہ ہزاروں خاندانوں کی خوشحالی کی کہانی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم مقامی صنعتوں کو مضبوط کریں گے، تو ہمیں درآمدات پر انحصار کم کرنا پڑے گا۔
معاشی اصلاحات: چیلنجز اور کامیابیاں
کوئی بھی حکومت معاشی چیلنجز سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتی، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہماری حکومت نے پچھلے 11 مہینوں میں 120 سے زائد گورننس، اقتصادی پالیسی اور قانونی فریم ورک میں اصلاحات نافذ کی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت ملک کی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے “پاکستان ریفارمز رپورٹ 2025” کے تحت ان اصلاحات کو دستاویزی شکل دی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب معاشی بحران آتا تھا تو کیسے لوگوں کی امیدیں ٹوٹ جاتی تھیں، لیکن اب ایسے اقدامات سے ایک اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔ پی آئی اے نے چھ ماہ میں 11.5 ارب روپے کا قبل از ٹیکس منافع کما کر دو دہائیوں کے نقصانات کا سلسلہ ختم کر دیا ہے، جو حکومتی اصلاحاتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ سب ہمیں بتاتا ہے کہ درست پالیسیاں اور شفافیت کیسے ایک ادارے کو دوبارہ کھڑا کر سکتی ہیں۔
عوامی شمولیت اور جمہوریت: شہریوں کو بااختیار بنانا
فیصلہ سازی میں عوام کی آواز: بلدیاتی اداروں کا کردار
مجھے ہمیشہ سے یقین رہا ہے کہ جمہوریت کا اصل حسن عوامی شمولیت میں ہے۔ جب تک نچلی سطح پر عوام کو فیصلوں میں شامل نہیں کیا جائے گا، حقیقی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ مجھے یاد ہے کہ جب بلدیاتی نمائندے فعال ہوتے تھے تو کیسے گلی محلے کے مسائل فوراً حل ہو جاتے تھے۔ پنجاب میں سیلاب کی صورتحال کے دوران بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی شدت سے محسوس کی گئی، جس سے ناقابل تلافی نقصان بھی ہوا۔ میرے تجربے میں، عوام کو جوابدہ اور بااختیار نمائندے دینا بہت ضروری ہے تاکہ ہر آفت اور ہر بحران کا مقابلہ کیا جا سکے۔ صدر مملکت آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی عالمی یوم جمہوریت کے حوالے سے اپنے پیغامات میں جمہوریت کی اہمیت پر زور دیا ہے، کہ یہ نظام شہریوں کو بااختیار بناتا ہے اور انہیں سیاسی عمل میں مؤثر شرکت کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کا اہم کردار ہے کہ وہ عوام کی آواز کی نمائندہ بنے اور قومی پالیسیوں کی معمار ہو۔ مجھے امید ہے کہ ہماری حکومتیں اس سمت میں مزید اقدامات کریں گی۔
سماجی انصاف اور فلاح: ہر شہری کی ترقی
ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر شخص کو انصاف اور ترقی کے یکساں مواقع ملیں، وہی حقیقی معنوں میں کامیاب ہے۔ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب حکومت سماجی انصاف پر توجہ دیتی ہے تو پورا معاشرہ خوشحال ہوتا ہے۔ احساس پروگرام، صحت انصاف کارڈ، اور نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام جیسے فلاحی منصوبوں نے غریب طبقے کی خوشحالی اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ یہ صرف حکومتی پروگرام نہیں ہیں، یہ لاکھوں لوگوں کی امیدیں ہیں جنہیں بہتر زندگی کی توقع ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب کوئی اچھا کام ہوتا تھا تو لوگوں کے چہروں پر کیسی خوشی چھا جاتی تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے کی پیداوار میں بہتری، ویلیو ایڈیشن اور زرعی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ یہ سب سماجی انصاف اور فلاح کی ہی عکاسی کرتے ہیں۔
عالمی تعلقات اور علاقائی استحکام: پاکستان کا کردار
خارجہ پالیسی کی کامیابی: عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان
میں نے ہمیشہ یہ بات سنی ہے کہ کوئی بھی ملک تنہا ترقی نہیں کر سکتا۔ عالمی سطح پر ہمارے تعلقات جتنے مضبوط ہوں گے، اتنی ہی ہماری معیشت اور ترقی کے امکانات بڑھیں گے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں ایک آزاد اور مضبوط موقف رکھتا ہے۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کا قیام ملک میں معاشی ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ایک بہترین قدم ہے۔ اس سے نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں دلچسپی لیں گے بلکہ ہماری ملکی معیشت بھی مستحکم ہوگی۔ مجھے یاد ہے کہ ماضی میں سفارتی تعلقات میں بہت اتار چڑھاؤ آتے تھے، لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان نے مراکش کی آزادی کے لیے اقوام متحدہ میں اہم کردار ادا کیا تھا، اور فلسطین کے مسئلے پر ہمارا اصولی موقف ہمیشہ سے رہا ہے۔ یہ سب عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مضبوط کرتا ہے۔
علاقائی روابط: تجارت اور ترقی کے نئے افق
علاقائی روابط کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے بہت اہم ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ پاکستان اب وسطی ایشیا اور دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے۔ ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے ٹرانزٹ راہداری منصوبہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جو خطے کی اقتصادی ترقی اور تجارتی روابط کو مستحکم کرے گا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کو وسطی ایشیا تک سب سے مختصر اور موثر ترین راستہ میسر آئے گا، جس سے سالانہ 15 ملین ٹن سامان کی ترسیل کی صلاحیت متوقع ہے۔ یہ صرف سامان کی آمدورفت کی بات نہیں، یہ ثقافتی تبادلوں اور لوگوں کے درمیان تعلقات کو بھی فروغ دے گا۔ میرے تجربے میں، جب پڑوسی ممالک کے درمیان تجارت بڑھتی ہے تو خوشحالی بھی آتی ہے۔ سی پیک (CPEC) جیسے منصوبے بھی علاقائی روابط کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، جو پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں۔
| پالیسی کا شعبہ | اہم پالیسی / منصوبہ | عوامی زندگی پر اثر |
|---|---|---|
| ٹرانسپورٹ و مواصلات | پاکستان ریلوے کی جدید کاری اور منافع بخش بنانا | سفری سہولیات میں بہتری، آمدنی میں اضافہ، بجلی کی بچت |
| ای-گورننس | پنجاب میں الیکٹرک بسیں، آر ڈی اے میں ای-گورننس سسٹم | شفافیت، کارکردگی میں اضافہ، ماحول دوست ٹرانسپورٹ |
| زراعت | بلاسود زرعی قرضے، شمسی توانائی پر ٹیوب ویلز کی منتقلی | کسانوں کی خوشحالی، پیداوار میں اضافہ، اخراجات میں کمی |
| تعلیم | معیاری تعلیمی اصلاحات، مصنوعی ذہانت کی تربیت | نوجوانوں کو ہنر، تعلیمی معیار میں بہتری، روزگار کے مواقع |
| اقتصادی استحکام | چھوٹی صنعتوں کو فروغ، پی آئی اے کی اصلاحات | روزگار کے مواقع، ملکی معیشت کی مضبوطی، خسارے میں کمی |
بات ختم کرتے ہوئے
آج ہم نے دیکھا کہ کس طرح عوامی فلاحی پالیسیاں ہماری روزمرہ کی زندگیوں کو نکھار رہی ہیں۔ ریلوے کی ترقی سے لے کر زرعی شعبے کی خوشحالی تک، اور ای-گورننس سے لے کر معیاری تعلیم و صحت کی فراہمی تک، ہر شعبے میں حکومت اور عوام کی مشترکہ کاوشیں رنگ لا رہی ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر دل سے خوشی ہوتی ہے کہ ہم ایک ایسے پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہر شہری کو ترقی اور بہتر مستقبل کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ یاد رکھیں، ہمارا ایک ساتھ چلنا ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔
جاننے کے لیے مفید معلومات
یہاں کچھ ایسی اہم معلومات اور مفید مشورے ہیں جو آپ کو ان پالیسیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے میں مدد دیں گے، اور یہ سب میرے اپنے تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہیں۔
1. اگر آپ ایک کسان ہیں اور جدید زرعی مشینری یا سولر ٹیوب ویلز کے لیے بلاسود قرضوں کی تلاش میں ہیں، تو اپنی مقامی زرعی ترقیاتی بینک کی شاخ سے رجوع کریں۔ وہاں کے اہلکار آپ کی مکمل رہنمائی کریں گے کہ کیسے ان سہولیات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ میں نے خود کئی کسانوں کو دیکھا ہے جو ان قرضوں کے ذریعے اپنی زمینوں کو مزید زرخیز بنا رہے ہیں۔ یہ ایک بہترین موقع ہے اپنی پیداوار بڑھانے کا!
2. ای-گورننس کے بڑھتے ہوئے رجحان سے فائدہ اٹھائیں! جیسے پنجاب میں الیکٹرک بس سروس یا راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا آن لائن سسٹم۔ اپنی مقامی سرکاری ویب سائٹس کو باقاعدگی سے چیک کریں، اکثر اہم خدمات اب آن لائن دستیاب ہیں جس سے آپ کا وقت اور پیسہ دونوں بچتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ماضی میں چھوٹی چھوٹی درخواستوں کے لیے کتنا دھکے کھانے پڑتے تھے، لیکن اب یہ سب انگلیوں پر ہے۔
3. پاکستان کی اے آئی (مصنوعی ذہانت) پالیسی کے تحت نوجوانوں کو تربیت دینے کے پروگرامز پر نظر رکھیں۔ یہ آپ کے کیریئر کو ایک نئی سمت دے سکتے ہیں۔ حکومتی اور نجی شعبے کی جانب سے پیش کیے جانے والے ان کورسز میں حصہ لے کر آپ مستقبل کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔ میں خود حیران ہوں کہ کیسے ٹیکنالوجی ہر شعبے میں تبدیلیاں لا رہی ہے اور ہمارے نوجوانوں کے لیے نئے دروازے کھول رہی ہے۔
4. اپنی آواز کو اہمیت دیں۔ بلدیاتی اداروں کو فعال بنانے اور عوامی مسائل کے حل کے لیے اپنے منتخب نمائندوں سے رابطہ رکھیں۔ جب آپ اپنے علاقے کے مسائل کو اٹھاتے ہیں تو حکومتی پالیسی سازوں کو ان پر عملدرآمد کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جمہوری عمل میں آپ کی شرکت بہت اہم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب ہم سب مل کر آواز اٹھاتے ہیں تو تبدیلی ضرور آتی ہے۔
5. اگر آپ چھوٹے یا درمیانے درجے کے کاروباری مالک ہیں تو پاکستان کی برآمدات کو فروغ دینے والی سرکاری سکیموں کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ بہت سے ادارے چھوٹے کاروباروں کو عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ میری نظر میں، یہ ہمارے ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کا ایک بہترین طریقہ ہے اور آپ کے کاروبار کو عالمی سطح پر پہچان دلانے کا ایک موقع۔
اہم نکات کا خلاصہ
آج ہم نے دیکھا کہ ہماری حکومتیں کس طرح عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان ریلوے کی بحالی سے لے کر ای-گورننس کے منصوبوں، زرعی شعبے میں جدیدیت، اور تعلیم و صحت کے معیار میں بہتری تک، ہر قدم ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر رہا ہے۔ انفراسٹرکچر کی مضبوطی اور اقتصادی استحکام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات نے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں اور ہماری معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ یہ تمام کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ درست پالیسیاں اور عوام کا ساتھ کسی بھی چیلنج پر قابو پا سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سفر جاری رہے گا اور آنے والا وقت ہمارے لیے مزید خوشحالی لائے گا۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: پالیسی تجزیہ کار کیا کرتے ہیں اور ان کا کردار ہمارے معاشرے کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟
ج: جب میں نے پہلی بار پالیسی تجزیہ کاروں کے بارے میں جانا تو مجھے لگا کہ یہ کوئی عام سی نوکری ہوگی، لیکن وقت کے ساتھ میں نے سمجھا کہ ان کا کام ہمارے تصور سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور اہم ہے۔ پالیسی تجزیہ کار دراصل ہمارے معاشرے کے “مسائل کے ڈاکٹر” ہوتے ہیں۔ وہ کسی بھی مسئلے، جیسے تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ یا معیشت سے متعلق، کو گہرائی سے پرکھتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ اس مسئلے سے جڑے تمام حقائق اور اعداد و شمار جمع کرتے ہیں۔ پھر ان کا تجزیہ کرتے ہیں کہ کیا چیز درست ہے، کیا غلط ہے، اور اس کے کیا ممکنہ اثرات ہو سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے، ایک بار میں نے خود دیکھا کہ جب کوئی پالیسی بغیر گہری سوچ اور ٹھوس تجزیے کے بنتی ہے تو اس کے نتائج کتنے بُرے ہو سکتے ہیں۔ پالیسی تجزیہ کار کا سب سے اہم کردار یہ ہے کہ وہ حکومت کو مختلف آپشنز فراہم کرتے ہیں کہ کسی مسئلے کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے اور ہر حل کے کیا فوائد اور نقصانات ہوں گے۔ یہ لوگ ہماری حکومت کے فیصلوں کی بنیاد بناتے ہیں تاکہ وہ صرف کاغذوں پر منصوبے نہ بنیں بلکہ حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود کا باعث بنیں۔ ان کی مہارت اور تجزیہ ہمیں مستقبل کی مشکلات سے بچاتا ہے اور ایسی پالیسیاں بنانے میں مدد دیتا ہے جو پائیدار اور موثر ہوں۔ ان کی موجودگی اس بات کی ضمانت ہے کہ حکومتی اقدامات عوامی مفاد میں ہوں اور بہترین نتائج دیں۔
س: عوامی پالیسیاں ہماری روزمرہ کی زندگی کو کیسے متاثر کرتی ہیں اور کیا ہم واقعی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں؟
ج: یقین کریں، ہر صبح جب ہم آنکھ کھولتے ہیں تو جانے انجانے میں کئی حکومتی پالیسیوں کے ثمرات سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔ عوامی پالیسیاں صرف بڑی بڑی حکومتی فائلوں کا حصہ نہیں بلکہ یہ براہ راست ہماری زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ آپ دیکھ لیں، جس سڑک پر ہم سفر کرتے ہیں، جو بجلی ہمارے گھروں کو روشن کرتی ہے، ہمارے بچوں کے لیے اسکولوں کا نظام، اور ہسپتالوں میں ملنے والی طبی سہولیات – یہ سب عوامی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ مجھے لگتا ہے، اکثر اوقات ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ حکومت کے چھوٹے سے چھوٹے فیصلے بھی ہماری زندگیوں پر کتنے بڑے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ مثلاً، جب حکومت سستی بجلی کی پالیسی لاتی ہے تو ہمارے بجلی کے بل کم ہوتے ہیں، یا جب وہ ہسپتالوں میں نئی مشینری فراہم کرتی ہے تو ہمیں بہتر علاج ملتا ہے۔ جمہوری نظام میں تو یہ پالیسیاں اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ یہ عوام کے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ یہ پالیسیاں ہمیں روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہیں، معاشرے میں مساوات اور انصاف کو فروغ دیتی ہیں، اور ہمیں ایک محفوظ اور پرسکون ماحول میں رہنے کا حق دیتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی کسی پالیسی سے کچھ لوگوں کو تکلیف بھی ہوتی ہے، مگر مجموعی طور پر ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچانا اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوتا ہے۔
س: پاکستان میں حالیہ کامیاب عوامی پالیسیوں کی کچھ مثالیں کیا ہیں جو ہماری ترقی میں معاون ثابت ہوئی ہیں؟
ج: پاکستان میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں حکومتی پالیسیوں نے لوگوں کی زندگیوں میں نمایاں بہتری لائی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار پنجاب میں ای-ٹیکسی کے منصوبے کے بارے میں سنا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ حکومت جدید ٹیکنالوجی کو عام آدمی کے فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ پنجاب حکومت کا ای-ٹیکسی منصوبہ ایک شاندار مثال ہے جو ماحول دوست ٹرانسپورٹ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کر رہا ہے۔ اس اسکیم کے تحت 1100 الیکٹرک ٹیکسیاں آسان اور بلا سود اقساط پر شہریوں کو دی جا رہی ہیں، اور خاص طور پر خواتین کے لیے بھی گاڑیاں مختص کی گئی ہیں تاکہ انہیں محفوظ اور بہتر سفری سہولیات میسر آئیں۔ آن لائن درخواست کا عمل بھی اس کی شفافیت کو ظاہر کرتا ہے۔اسی طرح، پاکستان ریلوے میں حالیہ ترقی بھی کسی کامیابی سے کم نہیں ہے۔ میرے اپنے کئی دوستوں نے ریلوے کے سفر میں بہتری محسوس کی ہے۔ پاکستان ریلوے نے ریکارڈ آمدنی حاصل کی ہے، جو کہ اس کے 78 سالہ تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ یہ سب بہتری کی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے، جس میں جدید کوچز کی شمولیت، تیل کی چوری روکنے کے لیے ڈپوز کو کمپیوٹرائز کرنا، اور سولرائزیشن جیسے اقدامات شامل ہیں۔ حکومت اب لاہور اور کراچی کے درمیان 2030 تک بلٹ ٹرین چلانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے، جو سفر کو تیز اور آرام دہ بنائے گی۔ یہ نہ صرف مسافروں کے لیے سہولت ہے بلکہ معیشت کے لیے بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ مثالیں واضح طور پر دکھاتی ہیں کہ جب اچھی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور ان پر ایمانداری سے عمل کیا جاتا ہے، تو عوام کو براہ راست فائدہ ہوتا ہے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
📚 حوالہ جات
◀ 4. صحت و تعلیم کا معیار: ایک بہتر مستقبل کی ضمانت
– 4. صحت و تعلیم کا معیار: ایک بہتر مستقبل کی ضمانت
◀ ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس کی تعلیم میں پوشیدہ ہے۔ میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمارے بچوں کو بہترین تعلیم ملنی چاہیے۔ پاکستان میں تعلیمی پالیسیوں کا ایک طویل سفر رہا ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ حکومت تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اگرچہ ماضی میں تعلیم اور صحت ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں رہے، لیکن اب اس صورتحال کو بدلنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب 1970 میں بھٹو دور میں تعلیمی پالیسی آئی تھی تو اس کا مقصد تعلیم کو عوامی حق بنانا تھا، جس کے تحت نجی اداروں کو قومیایا گیا اور تعلیمی منصوبہ بندی کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی طرح، اب ہمیں ضرورت ہے کہ ہم ایسی پالیسیاں بنائیں جو ہر بچے کو معیاری تعلیم تک رسائی دے سکیں۔ مصنوعی ذہانت (AI) کو تعلیم کا حصہ بنانے اور طلباء کے لیے تحقیق میں فنڈنگ سپورٹ فراہم کرنے جیسی سفارشات ایک روشن مستقبل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ میرے خیال میں، جب تعلیم کا معیار بہتر ہوتا ہے تو پورا معاشرہ ترقی کرتا ہے۔
– ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس کی تعلیم میں پوشیدہ ہے۔ میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمارے بچوں کو بہترین تعلیم ملنی چاہیے۔ پاکستان میں تعلیمی پالیسیوں کا ایک طویل سفر رہا ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ حکومت تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اگرچہ ماضی میں تعلیم اور صحت ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں رہے، لیکن اب اس صورتحال کو بدلنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب 1970 میں بھٹو دور میں تعلیمی پالیسی آئی تھی تو اس کا مقصد تعلیم کو عوامی حق بنانا تھا، جس کے تحت نجی اداروں کو قومیایا گیا اور تعلیمی منصوبہ بندی کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی طرح، اب ہمیں ضرورت ہے کہ ہم ایسی پالیسیاں بنائیں جو ہر بچے کو معیاری تعلیم تک رسائی دے سکیں۔ مصنوعی ذہانت (AI) کو تعلیم کا حصہ بنانے اور طلباء کے لیے تحقیق میں فنڈنگ سپورٹ فراہم کرنے جیسی سفارشات ایک روشن مستقبل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ میرے خیال میں، جب تعلیم کا معیار بہتر ہوتا ہے تو پورا معاشرہ ترقی کرتا ہے۔
◀ صحت مند معاشرہ ہی ایک مضبوط قوم کی بنیاد ہوتا ہے۔ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ صحت کی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے کتنے لوگ پریشان ہوتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ حکومت صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے سنجیدہ ہے۔ ایک اچھی پالیسی ہی اس شعبے میں حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے۔ حال ہی میں پاکستان میڈیکل کونسل کی نئی پالیسی پر بحث ہوئی ہے، جس کا مقصد میڈیکل ایجوکیشن کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔ اگرچہ اس پالیسی کے کچھ پہلوؤں پر طلبہ کو تحفظات ہیں، لیکن اصل مقصد معیاری ڈاکٹرز تیار کرنا ہے جو ہمارے ملک کی خدمت کر سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت ان تحفظات کو دور کرے گی اور ایسی پالیسی بنائے گی جو نہ صرف معیار کو بہتر بنائے بلکہ ہمارے ڈاکٹروں کو بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کروائے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں میری رائے میں، کسی قسم کی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
– صحت مند معاشرہ ہی ایک مضبوط قوم کی بنیاد ہوتا ہے۔ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ صحت کی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے کتنے لوگ پریشان ہوتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ حکومت صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے سنجیدہ ہے۔ ایک اچھی پالیسی ہی اس شعبے میں حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے۔ حال ہی میں پاکستان میڈیکل کونسل کی نئی پالیسی پر بحث ہوئی ہے، جس کا مقصد میڈیکل ایجوکیشن کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔ اگرچہ اس پالیسی کے کچھ پہلوؤں پر طلبہ کو تحفظات ہیں، لیکن اصل مقصد معیاری ڈاکٹرز تیار کرنا ہے جو ہمارے ملک کی خدمت کر سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت ان تحفظات کو دور کرے گی اور ایسی پالیسی بنائے گی جو نہ صرف معیار کو بہتر بنائے بلکہ ہمارے ڈاکٹروں کو بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کروائے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں میری رائے میں، کسی قسم کی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
◀ ہماری روزمرہ کی زندگی میں سڑکوں اور جدید انفراسٹرکچر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے تو خود دیکھا ہے کہ ایک اچھی سڑک کیسے دوریاں مٹا دیتی ہے اور لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرتی ہے۔ پنجاب میں بڑے پیمانے پر عوامی فلاحی منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن میں سینی ٹیشن، صاف پانی کی فراہمی اور دیہی علاقوں میں رابطہ سڑکوں کی بحالی شامل ہے۔ یہ سب 80 ارب روپے کی لاگت سے سی ایم پنجاب ڈسٹرکٹ ایس ڈی جی پروگرام کے تحت ہو رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب کوئی نیا روڈ بنتا تھا تو کتنا شور ہوتا تھا کہ یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے، لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان منصوبوں سے عام لوگوں کو براہ راست فائدہ ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حالیہ دورے میں الیکٹرک بس سروس کا افتتاح اور سیلاب متاثرین سے ملاقاتیں بھی اسی عزم کی عکاسی کرتی ہیں۔ میرے تجربے میں، جب حکومت نچلی سطح پر ترقیاتی کاموں پر توجہ دیتی ہے تو عوام کا اعتماد بڑھتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا پیسہ ان پر ہی لگایا جا رہا ہے۔
– ہماری روزمرہ کی زندگی میں سڑکوں اور جدید انفراسٹرکچر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے تو خود دیکھا ہے کہ ایک اچھی سڑک کیسے دوریاں مٹا دیتی ہے اور لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرتی ہے۔ پنجاب میں بڑے پیمانے پر عوامی فلاحی منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن میں سینی ٹیشن، صاف پانی کی فراہمی اور دیہی علاقوں میں رابطہ سڑکوں کی بحالی شامل ہے۔ یہ سب 80 ارب روپے کی لاگت سے سی ایم پنجاب ڈسٹرکٹ ایس ڈی جی پروگرام کے تحت ہو رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب کوئی نیا روڈ بنتا تھا تو کتنا شور ہوتا تھا کہ یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے، لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان منصوبوں سے عام لوگوں کو براہ راست فائدہ ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حالیہ دورے میں الیکٹرک بس سروس کا افتتاح اور سیلاب متاثرین سے ملاقاتیں بھی اسی عزم کی عکاسی کرتی ہیں۔ میرے تجربے میں، جب حکومت نچلی سطح پر ترقیاتی کاموں پر توجہ دیتی ہے تو عوام کا اعتماد بڑھتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا پیسہ ان پر ہی لگایا جا رہا ہے۔
◀ توانائی کسی بھی ملک کی ترقی کا انجن ہوتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ حکومت اب پائیدار توانائی کے ذرائع پر توجہ دے رہی ہے۔ شمسی توانائی پر زرعی ٹیوب ویلز کی منتقلی ایک بہت اچھا قدم ہے۔ اس سے نہ صرف کسانوں کو فائدہ ہوگا بلکہ ملک کو بھی توانائی کے بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ میرے خیال میں، یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم روایتی ایندھن پر انحصار کم کریں اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دیں۔ یہ صرف بجلی کے بلوں کی بچت کی بات نہیں، یہ ہمارے مستقبل اور ماحول کے تحفظ کی بات ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بجلی جاتی تھی تو گھروں میں کیا حال ہوتا تھا، لیکن اب ایسے منصوبوں سے امید کی کرن نظر آتی ہے۔
– توانائی کسی بھی ملک کی ترقی کا انجن ہوتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ حکومت اب پائیدار توانائی کے ذرائع پر توجہ دے رہی ہے۔ شمسی توانائی پر زرعی ٹیوب ویلز کی منتقلی ایک بہت اچھا قدم ہے۔ اس سے نہ صرف کسانوں کو فائدہ ہوگا بلکہ ملک کو بھی توانائی کے بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ میرے خیال میں، یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم روایتی ایندھن پر انحصار کم کریں اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دیں۔ یہ صرف بجلی کے بلوں کی بچت کی بات نہیں، یہ ہمارے مستقبل اور ماحول کے تحفظ کی بات ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بجلی جاتی تھی تو گھروں میں کیا حال ہوتا تھا، لیکن اب ایسے منصوبوں سے امید کی کرن نظر آتی ہے۔
◀ میں ہمیشہ سے مانتی ہوں کہ چھوٹی اور درمیانی صنعتیں کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ حکومت اب ان شعبوں پر توجہ دے رہی ہے۔ ماضی میں، بڑے صنعت کاروں کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، لیکن اب چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بھی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ میرے تجربے میں، جب چھوٹے کاروبار ترقی کرتے ہیں تو اس سے براہ راست عام آدمی کو روزگار ملتا ہے اور ملکی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں چھوٹی صنعتوں کا حصہ 35 فیصد ہے، اور انہیں مزید فروغ دے کر ہم اپنی معاشی صورتحال کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، یہ ہزاروں خاندانوں کی خوشحالی کی کہانی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم مقامی صنعتوں کو مضبوط کریں گے، تو ہمیں درآمدات پر انحصار کم کرنا پڑے گا۔
– میں ہمیشہ سے مانتی ہوں کہ چھوٹی اور درمیانی صنعتیں کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ حکومت اب ان شعبوں پر توجہ دے رہی ہے۔ ماضی میں، بڑے صنعت کاروں کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، لیکن اب چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بھی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ میرے تجربے میں، جب چھوٹے کاروبار ترقی کرتے ہیں تو اس سے براہ راست عام آدمی کو روزگار ملتا ہے اور ملکی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں چھوٹی صنعتوں کا حصہ 35 فیصد ہے، اور انہیں مزید فروغ دے کر ہم اپنی معاشی صورتحال کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، یہ ہزاروں خاندانوں کی خوشحالی کی کہانی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم مقامی صنعتوں کو مضبوط کریں گے، تو ہمیں درآمدات پر انحصار کم کرنا پڑے گا۔
◀ کوئی بھی حکومت معاشی چیلنجز سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتی، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہماری حکومت نے پچھلے 11 مہینوں میں 120 سے زائد گورننس، اقتصادی پالیسی اور قانونی فریم ورک میں اصلاحات نافذ کی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت ملک کی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے “پاکستان ریفارمز رپورٹ 2025” کے تحت ان اصلاحات کو دستاویزی شکل دی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب معاشی بحران آتا تھا تو کیسے لوگوں کی امیدیں ٹوٹ جاتی تھیں، لیکن اب ایسے اقدامات سے ایک اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔ پی آئی اے نے چھ ماہ میں 11.5 ارب روپے کا قبل از ٹیکس منافع کما کر دو دہائیوں کے نقصانات کا سلسلہ ختم کر دیا ہے، جو حکومتی اصلاحاتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ سب ہمیں بتاتا ہے کہ درست پالیسیاں اور شفافیت کیسے ایک ادارے کو دوبارہ کھڑا کر سکتی ہیں۔
– کوئی بھی حکومت معاشی چیلنجز سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتی، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہماری حکومت نے پچھلے 11 مہینوں میں 120 سے زائد گورننس، اقتصادی پالیسی اور قانونی فریم ورک میں اصلاحات نافذ کی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت ملک کی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے “پاکستان ریفارمز رپورٹ 2025” کے تحت ان اصلاحات کو دستاویزی شکل دی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب معاشی بحران آتا تھا تو کیسے لوگوں کی امیدیں ٹوٹ جاتی تھیں، لیکن اب ایسے اقدامات سے ایک اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔ پی آئی اے نے چھ ماہ میں 11.5 ارب روپے کا قبل از ٹیکس منافع کما کر دو دہائیوں کے نقصانات کا سلسلہ ختم کر دیا ہے، جو حکومتی اصلاحاتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ سب ہمیں بتاتا ہے کہ درست پالیسیاں اور شفافیت کیسے ایک ادارے کو دوبارہ کھڑا کر سکتی ہیں۔
◀ عوامی شمولیت اور جمہوریت: شہریوں کو بااختیار بنانا
– عوامی شمولیت اور جمہوریت: شہریوں کو بااختیار بنانا
◀ فیصلہ سازی میں عوام کی آواز: بلدیاتی اداروں کا کردار
– فیصلہ سازی میں عوام کی آواز: بلدیاتی اداروں کا کردار
◀ مجھے ہمیشہ سے یقین رہا ہے کہ جمہوریت کا اصل حسن عوامی شمولیت میں ہے۔ جب تک نچلی سطح پر عوام کو فیصلوں میں شامل نہیں کیا جائے گا، حقیقی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ مجھے یاد ہے کہ جب بلدیاتی نمائندے فعال ہوتے تھے تو کیسے گلی محلے کے مسائل فوراً حل ہو جاتے تھے۔ پنجاب میں سیلاب کی صورتحال کے دوران بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی شدت سے محسوس کی گئی، جس سے ناقابل تلافی نقصان بھی ہوا۔ میرے تجربے میں، عوام کو جوابدہ اور بااختیار نمائندے دینا بہت ضروری ہے تاکہ ہر آفت اور ہر بحران کا مقابلہ کیا جا سکے۔ صدر مملکت آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی عالمی یوم جمہوریت کے حوالے سے اپنے پیغامات میں جمہوریت کی اہمیت پر زور دیا ہے، کہ یہ نظام شہریوں کو بااختیار بناتا ہے اور انہیں سیاسی عمل میں مؤثر شرکت کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کا اہم کردار ہے کہ وہ عوام کی آواز کی نمائندہ بنے اور قومی پالیسیوں کی معمار ہو۔ مجھے امید ہے کہ ہماری حکومتیں اس سمت میں مزید اقدامات کریں گی۔
– مجھے ہمیشہ سے یقین رہا ہے کہ جمہوریت کا اصل حسن عوامی شمولیت میں ہے۔ جب تک نچلی سطح پر عوام کو فیصلوں میں شامل نہیں کیا جائے گا، حقیقی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ مجھے یاد ہے کہ جب بلدیاتی نمائندے فعال ہوتے تھے تو کیسے گلی محلے کے مسائل فوراً حل ہو جاتے تھے۔ پنجاب میں سیلاب کی صورتحال کے دوران بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی شدت سے محسوس کی گئی، جس سے ناقابل تلافی نقصان بھی ہوا۔ میرے تجربے میں، عوام کو جوابدہ اور بااختیار نمائندے دینا بہت ضروری ہے تاکہ ہر آفت اور ہر بحران کا مقابلہ کیا جا سکے۔ صدر مملکت آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی عالمی یوم جمہوریت کے حوالے سے اپنے پیغامات میں جمہوریت کی اہمیت پر زور دیا ہے، کہ یہ نظام شہریوں کو بااختیار بناتا ہے اور انہیں سیاسی عمل میں مؤثر شرکت کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کا اہم کردار ہے کہ وہ عوام کی آواز کی نمائندہ بنے اور قومی پالیسیوں کی معمار ہو۔ مجھے امید ہے کہ ہماری حکومتیں اس سمت میں مزید اقدامات کریں گی۔
◀ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر شخص کو انصاف اور ترقی کے یکساں مواقع ملیں، وہی حقیقی معنوں میں کامیاب ہے۔ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب حکومت سماجی انصاف پر توجہ دیتی ہے تو پورا معاشرہ خوشحال ہوتا ہے۔ احساس پروگرام، صحت انصاف کارڈ، اور نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام جیسے فلاحی منصوبوں نے غریب طبقے کی خوشحالی اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ یہ صرف حکومتی پروگرام نہیں ہیں، یہ لاکھوں لوگوں کی امیدیں ہیں جنہیں بہتر زندگی کی توقع ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب کوئی اچھا کام ہوتا تھا تو لوگوں کے چہروں پر کیسی خوشی چھا جاتی تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے کی پیداوار میں بہتری، ویلیو ایڈیشن اور زرعی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ یہ سب سماجی انصاف اور فلاح کی ہی عکاسی کرتے ہیں۔
– ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر شخص کو انصاف اور ترقی کے یکساں مواقع ملیں، وہی حقیقی معنوں میں کامیاب ہے۔ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب حکومت سماجی انصاف پر توجہ دیتی ہے تو پورا معاشرہ خوشحال ہوتا ہے۔ احساس پروگرام، صحت انصاف کارڈ، اور نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام جیسے فلاحی منصوبوں نے غریب طبقے کی خوشحالی اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ یہ صرف حکومتی پروگرام نہیں ہیں، یہ لاکھوں لوگوں کی امیدیں ہیں جنہیں بہتر زندگی کی توقع ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب کوئی اچھا کام ہوتا تھا تو لوگوں کے چہروں پر کیسی خوشی چھا جاتی تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے کی پیداوار میں بہتری، ویلیو ایڈیشن اور زرعی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ یہ سب سماجی انصاف اور فلاح کی ہی عکاسی کرتے ہیں۔
◀ عالمی تعلقات اور علاقائی استحکام: پاکستان کا کردار
– عالمی تعلقات اور علاقائی استحکام: پاکستان کا کردار
◀ خارجہ پالیسی کی کامیابی: عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان
– خارجہ پالیسی کی کامیابی: عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان
◀ میں نے ہمیشہ یہ بات سنی ہے کہ کوئی بھی ملک تنہا ترقی نہیں کر سکتا۔ عالمی سطح پر ہمارے تعلقات جتنے مضبوط ہوں گے، اتنی ہی ہماری معیشت اور ترقی کے امکانات بڑھیں گے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں ایک آزاد اور مضبوط موقف رکھتا ہے۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کا قیام ملک میں معاشی ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ایک بہترین قدم ہے۔ اس سے نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں دلچسپی لیں گے بلکہ ہماری ملکی معیشت بھی مستحکم ہوگی۔ مجھے یاد ہے کہ ماضی میں سفارتی تعلقات میں بہت اتار چڑھاؤ آتے تھے، لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان نے مراکش کی آزادی کے لیے اقوام متحدہ میں اہم کردار ادا کیا تھا، اور فلسطین کے مسئلے پر ہمارا اصولی موقف ہمیشہ سے رہا ہے۔ یہ سب عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مضبوط کرتا ہے۔
– میں نے ہمیشہ یہ بات سنی ہے کہ کوئی بھی ملک تنہا ترقی نہیں کر سکتا۔ عالمی سطح پر ہمارے تعلقات جتنے مضبوط ہوں گے، اتنی ہی ہماری معیشت اور ترقی کے امکانات بڑھیں گے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں ایک آزاد اور مضبوط موقف رکھتا ہے۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کا قیام ملک میں معاشی ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ایک بہترین قدم ہے۔ اس سے نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں دلچسپی لیں گے بلکہ ہماری ملکی معیشت بھی مستحکم ہوگی۔ مجھے یاد ہے کہ ماضی میں سفارتی تعلقات میں بہت اتار چڑھاؤ آتے تھے، لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان نے مراکش کی آزادی کے لیے اقوام متحدہ میں اہم کردار ادا کیا تھا، اور فلسطین کے مسئلے پر ہمارا اصولی موقف ہمیشہ سے رہا ہے۔ یہ سب عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مضبوط کرتا ہے۔
◀ علاقائی روابط کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے بہت اہم ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ پاکستان اب وسطی ایشیا اور دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے۔ ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے ٹرانزٹ راہداری منصوبہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جو خطے کی اقتصادی ترقی اور تجارتی روابط کو مستحکم کرے گا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کو وسطی ایشیا تک سب سے مختصر اور موثر ترین راستہ میسر آئے گا، جس سے سالانہ 15 ملین ٹن سامان کی ترسیل کی صلاحیت متوقع ہے۔ یہ صرف سامان کی آمدورفت کی بات نہیں، یہ ثقافتی تبادلوں اور لوگوں کے درمیان تعلقات کو بھی فروغ دے گا۔ میرے تجربے میں، جب پڑوسی ممالک کے درمیان تجارت بڑھتی ہے تو خوشحالی بھی آتی ہے۔ سی پیک (CPEC) جیسے منصوبے بھی علاقائی روابط کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، جو پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں۔
– علاقائی روابط کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے بہت اہم ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ پاکستان اب وسطی ایشیا اور دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے۔ ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے ٹرانزٹ راہداری منصوبہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جو خطے کی اقتصادی ترقی اور تجارتی روابط کو مستحکم کرے گا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کو وسطی ایشیا تک سب سے مختصر اور موثر ترین راستہ میسر آئے گا، جس سے سالانہ 15 ملین ٹن سامان کی ترسیل کی صلاحیت متوقع ہے۔ یہ صرف سامان کی آمدورفت کی بات نہیں، یہ ثقافتی تبادلوں اور لوگوں کے درمیان تعلقات کو بھی فروغ دے گا۔ میرے تجربے میں، جب پڑوسی ممالک کے درمیان تجارت بڑھتی ہے تو خوشحالی بھی آتی ہے۔ سی پیک (CPEC) جیسے منصوبے بھی علاقائی روابط کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، جو پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں۔
◀ سفری سہولیات میں بہتری، آمدنی میں اضافہ، بجلی کی بچت
– سفری سہولیات میں بہتری، آمدنی میں اضافہ، بجلی کی بچت
◀ پنجاب میں الیکٹرک بسیں، آر ڈی اے میں ای-گورننس سسٹم
– پنجاب میں الیکٹرک بسیں، آر ڈی اے میں ای-گورننس سسٹم
◀ شفافیت، کارکردگی میں اضافہ، ماحول دوست ٹرانسپورٹ
– شفافیت، کارکردگی میں اضافہ، ماحول دوست ٹرانسپورٹ
◀ بلاسود زرعی قرضے، شمسی توانائی پر ٹیوب ویلز کی منتقلی
– بلاسود زرعی قرضے، شمسی توانائی پر ٹیوب ویلز کی منتقلی
◀ کسانوں کی خوشحالی، پیداوار میں اضافہ، اخراجات میں کمی
– کسانوں کی خوشحالی، پیداوار میں اضافہ، اخراجات میں کمی
◀ نوجوانوں کو ہنر، تعلیمی معیار میں بہتری، روزگار کے مواقع
– نوجوانوں کو ہنر، تعلیمی معیار میں بہتری، روزگار کے مواقع






